اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں وزارت خارجہ اور دیگر حکام کو فوزیہ صدیقی کی جمع کرائی گئی دستاویزات پبلک کرنے سے روک دیا

اسلام آباد(ثبوت نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور امریکی جیل سے رہائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی عدالت نے فوزیہ صدیقی کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی

دستاویزات وزارت خارجہ اور دیگر حکام کو پبلک کرنے سے روک دیا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکہ وکیل مسٹر سمتھ 5 سے 8 مئی تک پاکستان پہنچیں گے

عدالت نے وزارت خارجہ کو عافیہ صدیقی کے وکیل مسٹر سمتھ کی پاکستان میں معاونت کرنے کی ہدایت کی کہ وزارت خارجہ فوزیہ صدیقی اور انکے امریکی وکیل مسٹر سمتھ کو مکمل معاونت فراہم کریں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے نئے وکیل عمران شفیق کے ہمراہ جبکہ وزارت خارجہ حکام،ایڈیشنل اٹارنی جنرل و دیگر عدالت میں پیش ہوئے

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ویزے کے لیے 2016 میں درخواست دی تھی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاسپورٹ ایکسپائر ہوگیا تھا

نیا پاسپورٹ بنا ہیآئی سی آر سی سے رابطہ کے لیے ڈپلومیٹک نارمز آڑے آتے ہیں جس پر وزرات خارجہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈپلومیٹک نارمز ان معاملات میں ریاست کے نیوٹرل رہنے کی بات کرتے ہیں

جس پر عدالت نے کہا کہ یہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہیصحت کی کنڈیشن کی وجہ سے ان کی فیملی والے انہیں واپس لانا چاہتے ہیں یہ انسانی ہمدردی کے طور پر گذارشات کر رہے ہیں اس میں ریاست کی ریاست سے مخالفت کہاں سے آ گئی

اس موقع پر وزرات خارجہ کے اسٹنٹ ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ اگر ایک خط سٹیٹ کی طرف سے جائے تو یہ آئی سی آر سے کی پالیسی کے خلاف ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ پہلے کورٹ کا آرڈر آیا تھا 20 جنوری سے اب تک وزارت خارجہ نے کیا کیا؟

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہماری کوشش تھی کہ ان کے لیئے ویزہ لیا جائے تاکہ یہ اپنی بہن سے ملنے جا سکیں ہم ویزہ حاصل کرنے کے قریب ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ وزارت خارجہ کے پاس اس سے زیادہ کپیسیٹی نہیں ہیآپ کیا چاہتے ہیں

وزارت خارجہ سے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ایک درخواست فائل کی ہے کچھ دستاویزات دی ہیں اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ نے اپنے امریکی وکیل کے کاغذ جو کے کانفیڈینشل تھے اس طرح جمع کرا کر مس کنڈکٹ کیا ہے

کیا آپ کے وکیل نے آپ کو اجازت دی ہے انہیں کورٹ میں جمع کرانے کی؟ اس موقع پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ 12 مارچ کو یہ ڈیکلریشن ملا تھا وزارت خارجہ کو اس کی کاپی دی ہیمیرے وکیل نے ای میل کی کہ میں کورٹ میں جمع کرا سکتی ہوں

جس پر عدالت نے کہا کہ اس ای میل کی کاپی عدالت کو بھی دے دیں کیا وزارت خارجہ کو بھی کاپی دینے کی اجازت دی گئی تھی جس پر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ جی اجازت دی گئی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ ڈکلیریشن سے پتہ چلتا ہیں

آپ کی پوری وزارت سے زیادہ تو ان کا وکیل وہاں کام کر رہا ہے بہت سے نقاط آپکے امریکی وکیل نے اٹھائے ہیں جن پر انہیں وزارت خارجہ کی سپورٹ کی ضرورت ہے اس موقع پر وزارت خارجہ کی جانب سے رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی،عدالت نے فوزیہ صدیقی سے استفسار کیا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں؟

جس پر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے وکیل 5 سے 8 مئی تک پاکستان آ رہے ہیں انھیں وزارت خارجہ سہولیات فراہم کرے،جس پر عدالت نے ہدایات دی کہ وزارت خارجہ فوزیہ صدیقی اور انکے امریکی وکیل کو مکمل معاونت فراہم کریں آئی سی آر سی اور فوزیہ صدیقی کے درمیان پل کاان فارمل کردار ادا کریں

فوزیہ صدیقی کی جمع دستاویزات کو فائل کا حصہ بنا رہے ہیں لیکن دستاویزات کانفیڈینشل ہیں ان دستاویزات کوسربمہر عدالت میں دینا بہتر تھا فوزیہ صدیقی اور ان کے پاکستانی وکیل کو بھی تمام میٹنگز میں شامل کیا جائے عدالت نے وزارت خارجہ کو 2003 سے 2008 تک کا عافیہ صدیقی سے متعلق ریکارڈ کی تلاش اور حصول کی ہدایت دی ہیں

ریکارڈ کے حصول کا اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ مسٹر سمتھ کی معاونت ہو سکے اس موقع پر فوزیہ صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کی ایک تاریخ مسٹر سمتھ کی تمام میٹنگز کے بعد رکھ دیں تاکہ وہ عدالت کو تمام پراگریس بتا سکیں جس پر عدالت نے کہا کہ اگر فوزیہ صدیقی کے امریکہ وکیل مسٹر سمتھ چاہیں

تو عدالت آسکتے ہیں عدالت نے کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔