ملازمین دھرنا‘ بلوچستان ہائی کورٹ نے 25فیصد اضافے تنخواہوں سے متعلق کیس کی سماعت‘ ملازمین بتائیں کہ کس قانون کے تحت سڑک بند کی کیا یہ آر ٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں جو دوسرے صوبے میں ہو لازمی نہیں کہ دوسرا صوبہ بھی کرے‘چیف جسٹس جمال خان مندوخیل

کوئٹہ(ثبوت نیوز) بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران خان ملاخیل نے ملازمین کے دھرنے کے حوالے سے آئینی درخواست کی سماعت کی عدالت میں میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان‘صوبائی سیکرٹریز اور گرینڈ الائنس کے قائدین پیش ہوئے‘عدالت میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے رپورٹ پیش کی چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے استفسار کرتے ہوئے

کہاکہ عدالت کے سامنے غلط بیانی سے متعلق آپ کی کیا رائے آپ نے بہت سے باتیں زبانی کیوں طے کیں چیف جسٹس نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ وفاق سے رابطہ کرکے پوچھا جائے کہ کس قانون کے تحت ان کو الاونس دیا گیا

وفاقی سے آنے والے سیکرٹریز کو بلوچستان میں ڈبل الاونس کس قانون کے تحت دیا جارہا ہے‘جسٹس کامران خان ملاخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سن الاونس کا مطالبہ تو اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ہے اپ گریڈیشن کا کوئی ضابطہ کار ہونا چاہئے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ اگر کوئی رول ہے تو ترقیاں ملازمین کا حق ہے

ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ نو مطالبات نو ٹیفائی ہوچکے ہیں‘جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آدمی جب کرسی سے ہٹتا یے تو دھکے کھاتا پھرتا ہے اگر اپ گریڈیشن رول ہیں تو اس کو فالو کیا جائے

حکومت مطالبات پر غور کیلئے ایسی ترامیم نہ کرکے پھر عدالت کو بیچ میں آنا پڑے تمام ملازمین کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا جائے کہ کس آفس کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے حکومت ملازمین میں تفریق کیوں کیوں بھرتی ہے

چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ ملازمین بتائیں کہ کس قانون کے تحت سڑک بند کی کیا یہ آر ٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں جو دوسرے صوبے میں ہو لازمی نہیں کہ دوسرا صوبہ بھی کرے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہیلتھ انشورنس کا مطالبہ تو نجی حکومت سہولیات کی بجائے نجی شعبے کو مضبوط کرنے کیلئے ہیں

ملازمین کا ہاوسنگ اسکیم کا مطالبہ جائز ہے جسٹس کامران ملاخیل نے کہاکہ ملازمین کو گھر دینے کیلئے جامع پالیسی بنانی چاہئے چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ کیا ملازمین حکومتی رپورٹ سے مطمئن ہیں

ایپکا کے صدر داد محمد بلوچ نے کہاکہ ملازمین کا اصل مطالبہ 25 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کا ہے تنخواہوں میں اضافہ دوسرے مطالبات کے ساتھ منسلک ہے جسٹس کامران ملاخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ اداروں کو دیگر کی نسبت زیادہ مل رہا ہے

ان کو 25 فیصد دیا جائے تو انکی مراعات تو آسمان کو جائیں گی چیف جسٹس نے کہاکہ شکریہ ادا کرنیکی کیا ضرورت روڈ بلاک کیا اور کھولنے پر آپ شکریہ ادا کرتے ہیں‘ ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ کورٹ میں کوئی سیکرٹری غلط بیانی کرے

تو اس کی کیا سزا ہے اور کہاکہ: الاونسز کی فراہمی سے متعلق سیکرٹری خزانہ نے کورٹ میں غلط بیانی کی ہے اگر وفاقی حکومت الاونسز دے رہی ہے تو بند کرو‘ صرف وزیر اعلی ہاوس کے ملازمین کو کیوں مل رہی ہے وفاقی ملازمین کو کیوں اس قدر مراعات دی جارہی ہیں تنخواہیں

دیگر صوبوں کے برابر کیئے جائیں‘جسٹس کامران ملاخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ویلفیئر کیلئے بنایا گیا ہے لیکن ویلفیئر رہ گیا اور سیاست شروع ہوگئی ہے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو حکم دیتے ہوئے کہاکہ وزیر اعلی‘ گورنر اور سول سیکرٹریٹ میں ملازمین کس گریڈ میں کیا

تنخواہ مل رہی تفصیلات فراہم کرے‘چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ حکومت یہ بتائے کہ آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کرکے کسی ملازم کو زیادہ کسی کو کم تنخواہ کیوں دے رہے ہیں ہر صوبہ آزاد ہے کوئی رسک الاونس دے سکتا ہے تو کوئی نہیں دے سکتا

جسٹس کامران ملاخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت شہر میں ٹریفک کنٹرول نہیں کرسکتی کیا کورونا کنٹرول کریگی ہیلتھ انشورینس کا معلوم نہیں نہ کوئی پالیسی خیبر پختونخواہ حکومت کو کاپی کررہے ہو لگتا ہے پرائیویٹ اسپتالوں کو نوازنے کیلئے یہ ہورہا ہے پھر کوئی خرچہ کرے نہ کرے اور پیسے نکلوائے

چیف جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ یہ تمام پیسے اگر سول اسپتال پر خرچ ہوجاتے ہیں تو سول اسپتال کی یہ حالت نہیں ہوگی ملازمین کے ہاوسنگ اسکیم کا مطالبہ جائز ہے, 50 لاکھ گھر بنارہے ہیں اللہ کرے ایسا ہو تو بلوچستان کو بھی کچھ ملے گا

چیف جسٹس نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی‘ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کیلئے کمیٹی کام کررہی ہے

ایپکا کے صدر داد محمد بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ تمام معاملات پر بات چیت ہوئی ہے لیکن تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے پر کمیٹی وقت مانگ رہی ہے‘ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سے بجٹ پر 15 ارب سے زائد کا بوجھ پڑیگا

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جمال خان مندوخیل نے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ مطلب یہ کہ بی آر اے جو کما رہی ہے ملازمین وہ مانگ رہے ہیں حکومت پہلے ہی 102 ارب خسارے میں جارہی ہے اگر کل پیسے نہ ہوں تو یہ الاونس واپس کرسکتے ہو داد محمد بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ 5 فیصد رکھ کر 20 فیصد واپس کرونگا چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جمال مندوخیل نے کہاکہ محکمہ مواصلات کے ملازمین کا معاملہ نیب عدالت میں چل رہا ہے, اس پر بحث نہیں کرسکتے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ گلوبل پارٹنر شپ اساتذہ کو جولائی 2020 سے اب تک تنخواہوں کی ادائیگی ہوگئی ہے

چیف جسٹس نے حبیب الرحمن مردانزئی سے استفسار کرتے ہوئے کہاکہ آپ ای ڈی او ایجوکیشن لورالائی ہو تو یہاں کیا کررہے ہیں‘جسٹس کامران ملاخیل نے کہاکہ اساتذہ اسکولوں میں نہیں جاتے صرف تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں‘چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے کہاکہ ایک لمبی چھوڑی لسٹ ہے کون کہاں ہے اور تنخواہ کون لے رہا ہے

سرکاری اسکول تباہ حال ہیں لوگ پرائیویٹ اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہیں میں نے کسی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے وہاں تعلیم اس لئے بہتر تھا کیونکہ وہاں ڈنڈا چلتا تھا ہمارے لوگ ڈنڈے کے زور پر چلتے ہیں‘عدالت نے ڈپٹی کنونیئر ا ایمپلائز گرینڈ الائنس حبیب الرحمن مردانزئی کی سرزنش کی اور عدالت نے ملازمین دھرنا کیس کی سماعت19اپریل تک ملتوی کردی گئی۔