سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیدیا چیف جسٹس یا کوئی جج ان چیمبر آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے نہیں کر سکتا،فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا

اسلام آباد(ثبوت نیوز)سپریم کورٹ نے زاہدہ جاوید اسلم کی معیز احمد کیخلاف درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس میں خصوصی نوٹ بھی جاری کیاہے

تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ نے زاہدہ جاوید اسلم کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیدیا اور کہاہے کہ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں

چیف جسٹس یا کوئی جج ان چیمبر آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے نہیں کر سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے کا اختیار اکیلے چیف جسٹس کے پاس بھی نہیں رہا

فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے تحریرکیاہے۔فیصلے میں کہاگیاہے کہ زاہدہ جاویدنے سپریم کورٹ نے ہیومن رائٹس سیل میں درخواست دائرکی تھی جس میں انھوں نے معیزپر سنگین نوعیت کے الزامات عائدکیے تھے

معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے چیمبرمیں سماعت کی گئی تھی۔6اور 15نومبر 2018کومعاملے کی سماعت کی گئی تھی۔رپورٹ میں بتایاگیاتھاکہ کاؤنٹرٹیررزم ڈیپارٹمنٹ اور کیپیٹل پولیس آفیسرراولپنڈی اس دوران متحرک ہوئے۔

سوال اٹھایاگیاکہ کیا چیف جسٹس اپنے چیمبرمیں انسانی حقوق سے متعلقہ کسی کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دے سکتے ہیں۔کیا آئین وقانون انھیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کیاسپریم کورٹ رولزمیں بھی اس کی کوئی گنجائش ہے

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خصوصی نوٹ میں کہاہے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا سیل تھا۔سپریم کورٹ کی عمارت میں 2005 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کام کر رہا ہے۔تب سے ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کسی قانون کے تحت، اور نہ ہی اس کی کارروائی کے چیف جسٹس نے اپنے قانون کے تحت قائم کیاتھا۔چیمبرز، یا عوامی اداروں کو جاری کردہ احکامات/ہدایات اور خطوط اورتنظیموں کو کوئی قانونی حمایت حاصل ہے۔

احکامات، ہدایات اور خطوطاس عدالت کے نام پر عدالتی ہونے کا غلط تاثر پیدا کیاگیا۔فریقین کو جاری کیے گئے سمن اور میں ہونے والی کارروائی چیف جسٹس کا چیمبر یا میٹنگ روم کھلے کی بجائے عدالت، ایک منصفانہ مقدمے کی سماعت اور مناسب عمل کے حق کی خلاف ورزی ہونے کا امکان ہے.

عدالت اور اس وجہ سے انصاف کی سنگین خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، کے حقائق کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔یہ کیس اظہر اقبال بمقابلہ ہائی کورٹ کے ایک رپورٹ شدہ فیصلے میں بھی یہی کیاگیاہے

یہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184,185,186کے تحت کام کررہی ہے اور آرٹیکل 188کے تحت اس عدالت کونظر ثانی کااختیار ہے۔عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کابھی استعمال کرسکتی ہے۔کوئی بھی چیف جسٹس یا ڈائریکٹر کی طرف سے کی گئی یا منعقد کی جانے والی کارروائی جنرل اور سمن، احکامات، ہدایات یا خطوط جس کے مطابق جاری کیے گئے ہیں۔

اس کو غیر قانونی اور آئین کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس عدالت کا رجسٹرار اس انسانی حقوق کوکام سے روک سکتاہے اور اس کی کوئی بھی سرگرمی، کارروائی کرنا یا سمن جاری کرنا، احکامات،ہدایات اور خطوط کو کوئی قانونی حمایت حاصل نہیں ہے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھاسپریم کورٹ کا آرٹیکل184/3 کا اختیار ہر معاملے میں مت گھسیٹیں، آرٹیکل 184/3 کے تحت جبری گمشدگیوں سمیت کئی ناگزیر معاملات موجود ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ ججز اور چیف جسٹس پر مشتمل ہوتا ہے

فیئر ٹرائل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈی جی ایچ آر سیل سپریم کورٹ کو عدالت طلب کرتے ہوئے پوچھا کیا آپ کے پاس کوئی قانونی آرڈریا نوٹیفکیشن ہے جس کے تحت ایچ آر سیل چل رہا ہے؟

ڈی جی ایچ آرسیل نے بتایا کہ ایچ آر سیل 2005 کے ایک سرکلر سے عمل میں آیا تھا، دسبر 2019 میں فل کورٹ اجلاس میں ایچ آرسیل کے رولز بنانے کا معاملہ آیا لیکن بنائے نہیں گئے۔چیف جسٹس نے کہا 2019 کے بعد تو فل کورٹ اجلاس میری سربراہی میں 18 ستمبر کو ہوا، کس قانون کے تحت سرکلر ہوا؟ ثاقب نثار کس قانون کے تحت چیمبر میں کیس سنتے رہے؟

ڈی جی ایچ آر سیل نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس چیمبرمیں کیس سننے کا کوئی جوڈیشل اختیار نہیں تھا، جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا ایچ آر سیل نے اپنا ریکارڈ ضائع کردیا ہے؟ جس پر ڈی جی ایچ آر سیل نے بتایا کہ ثاقب نثارکے کہنے پر ایچ آر سیل کی 3 لاکھ 98 ہزار درخواستوں کا ریکارڈ ضائع کیا۔

درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا

درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا

400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا

عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل زاہدہ جاوید اسلم نامی خاتون کی جانب سے دائر کی گئی

شکایت پر سماعت کے بعد معز احمد خان کو کلیئر قرار دیا تھا۔زاہدہ اسلم نے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ معز احمد خان ماہانہ تنخواہ کے عوض ان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتے تھے، تاہم مبینہ طور پر دھوکا دہی سے انہوں نے ان کی جائیدادیں اپنے نام منتقل کرلیں اور جب انہوں نے زمین واپس لینے کی کوشش کی تو معز احمد خان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار کو جمع کرائی گئی ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق زاہدہ جاوید اسلم کی زمین اصل دستاویزات کی بجائے فوٹو کاپی کی بنیاد پر معز خان کے نام منتقل کی گئی۔ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتائج میں بتایا گیا کہ شکایت کنندہ زاہدہ جاوید اسلم اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکیں

لیکن ان کا یہ دعویٰ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں معز احمد خان نے ڈرایا دھمکایا کیونکہ معز احمد خان نے زاہدہ جاوید اسلم کے اربوں روپے کے حصے کی مد میں انہیں کچھ بھی ادا نہیں کیا۔ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا

کہ زیربحث جائیداد سے متعلق ڈیل نہ تو عام حالات میں عمل پذیر ہوئی اور نہ ہی رجسٹرار آفس اسلام آباد کی جانب سے دستاویزات کی فوٹو کاپیوں کی بنیاد پر ملکیت کی منتقلی کا عمل شفاف طریقے سے سرانجام دیا گیا۔